مولانا فضل الرحمن نے ہفتہ کے روز اسلام آباد میں ارنا کے نامہ نگار کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا کہ مسلم ممالک کو فلسطین کی حمایت کے لیے مشترکہ دفاعی نظام اور کمان تشکیل دینا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ فلسطین اسلام اور عربوں کی مقدس سرزمین ہے اور اس پر اسرائیل کا قبضہ اور تسلط ناجائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نازک وقت میں امت اسلامیہ میں انتشار اور تفرقہ کی کوئی جگہ نہیں اور ہم سب کو اتحاد قائم کرنا چاہیے۔
سینیئر پاکستانی سیاست دان نے اسرائیل کے خلاف ایران کے اقدامات اور فلسطین کی حمایت میں تہران کے موقف کو قابل تعریف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ عالم اسلام کے دیگر بااثر ممالک جیسے پاکستان، سعودی عرب، ترکی ملائیشیا اور مصر وغیرہ بھی مسلمانوں کے مشترکہ مفادات کے تحفظ اور فلسطین کی آزادی کے لیے متحدہ ہوجائيں۔
انہوں نے ایران کے شہید صدر سید ابراہیم رئیسی، شہید اسماعیل ھنیہ اور شہید سید حسن نصر اللہ کو عالم اسلام کی عظیم شخصیات اور صیہونی حکومت کے خلاف جدوجہد کا علمبردار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائيل خطے میں بدامنی اصل جڑ ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ صیہونی حکومت کے خلاف ایران کا میزائل حملہ درحقیقت جوابی ردعمل تھا اور ایران نے اپنے دفاع کے جائز حق کا استعمال کیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما نے کہا کہ مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ اسرائیل جنگ کا دائرہ غزہ سے لبنان تک اور پھر ایران تک کیوں پھیلانا چاہتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ الاقصیٰ طوفان آپریشن کو ایک سال گزر چکا ہے اور ہم غاصب اسرائیل کے خلاف مجاہدین بیت المقدس کی جرائت مندانہ جنگ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ الاقصیٰ طوفان آپریشن کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر جمعیت علمائے اسلام ملک گير مظاہرے کرے گی جس میں معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک ہوکر فلسطینی اور غزہ کی حمایت میں آواز بلند کریں گے۔
اس رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے وزیر اعظم نے گزشتہ روز ملک کی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں سے ملاقات میں فلسطین کی حمایت اور اسرائیلی سازشوں کے خلاف پاکستانی سیاسی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس پیر 7 اکتوبر کو الاقصیٰ طوفان آپریشن کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر، بلانے کا اعلان کیا ہے۔
آپ کا تبصرہ